جب تک اہلبیت ؑ سے خلوص و محبت نہ ہوگی ایمان کامل نہ ہوگا، ڈاکٹر سید
عبدالمعیز حسینی کا شاندار خطاب شہر کے چھوٹا میدان میں سیدہ زینبؓ
ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام منعقدہ 3واں عظیم الشان عظمت اہلبیت ؑ
کانفرنس کاکامیاب انعقاد
بنگلور بتاریخ بروز پیر10؍نومبر2014ء بمقام شہر کے چھوٹا میدان میں سیدہ
زینبؓ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام 3واں عظیم الشان عظمت اہلبیت ؑ
کانفرنس کا کامیاب انعقاد حضرت مولانا مفتی سید شاہ حسن محمد شمس الحق صاحب
الحسنی والحسینی قادری الجیلانی کی صدارت ، حضرت سید قاسم شاہ قادری عرف
سرکار پاشاہ بیجاپور،کی سرپرستی میں عمل میں آیا، بعد نماز عصر جس کا آغاز
مولانا حافظ تنظیم صاحب ، مدرس مدرسہ ھٰذا کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ حیدر
آباد کے مشہور شاعر جناب محمد برہان الدین وارثی صاحب نے نعت و منقبت
اہلبیت ؑ کو پیش کیا۔ اس کانفرنس کے مقرر خصوصی شہزادہ غوث اعظم حضرت علامہ
مولانا سید شاہ محمد راشد اشرف مکی میاں صاحب قبلہ اشرفی الجیلانی نے اپنے
شاندار خطاب میں کہا کہ چاہے جتنی بھی عبادتیں کرلو مگر کامل ایمان کے لئے
اہلبیت ؑ رسول اﷲ ﷺ کی خالص محبت لازمی ہے ۔ مقام صہبا میں ڈوبے ہوئے
سورج کو پلٹانا نبی ؐ کا معجزہ ہے وقت مغرب کو وقت عصر میں تبدیل کرنا یہ
دوسرا معجزہ ہے جو حضرت علیؓ کی نماز قضاء ہونے کے سبب نمودار ہوا ، نماز
وہ جو علیؓ پر ناز کرتی ہے ، ترمذی شریف ، ابو داؤد، نسائی وغیرہ احادیث
کی کتابوں سے استدلال کرتے ہوئے موصوف نے کہا کہ حضور ﷺ نے کہا ،جس نے
علیؓ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔ میری قربت کی بناء میرے اہلبیت ؑ
محبت کرو ۔ رسول کائنات ﷺ وہ جس کے بے شمار احسانات بندوں پر وہ کوئی چیز
کو مانگ رہے ہیں کہ وہ میرے اہلبیت ؑ میرے گھر والو ں سے محبت کرو ، حسنؑ
و حسین ؑ دنیا میں میرے یہ جنت کے دوپھول ہیں ، مولانا نے کہا حضور ﷺ
اپنے نواسے حسن ؑ و حسین ؑ کی رونے کی آواز سنتے تو انہیں بہت تکلیف ہوا
کرتی ۔ علیؑ کی محبت حسن ؑ و حسین ؑ کی محبت عباس ؑ و زینب ؑ و سکینہ
ؑ سے محبت اجر رسالت سمجھ کر ان اہلبیت ؑ سے محبت کرو ، من احبا حسینؑ
فمن احبا ، جس نے حسین ؑ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی ۔ مولانا نے
مزید یہ کہا کہ آج ہماری مسلم خواتین میں کوئی قائد بے خوب ہو تو سمجھ لو
کہ خاتون کربلا سیدہ زینبؓ کی طاقت ہے، مومنو اہلبیت ؑ کی محبت اپنے دلو
ں میں رکھو ۔ موصوف نے کہا یزید حسینؓ سے ہاتھ ہی تو مانگ رہا تھا جس
حسین ؑ کا ہاتھ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہ السلام کا وارث ہے ، حضرت
آدم ؑ سے حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ تک پھر علی ؑ و امام حسین ؑ تک امام حسین
ؑ نے اس مقدس ہاتھ کو یزید پلید کے ہاتھ میں نہ دیا انہیں اپنے نانا جان
حضرت مصطفی ﷺ سے لیکر حضرت آدم ؑ تک تمام انبیاء علیہ السلام کی عظمت کا
خیال تھا ، حسین ؑ نے سر دیدیا مگر یزید پلید کے ہاتھ میں اپنا مقدس ہاتھ
نہ دیا ، حسین ؑ نے سر کو باطل کے آگے نہ جھکایا اپنے سر کو کٹا کر صوبہ
قیامت تک صدائے حق کو بلند و بالا کیا ۔ حسین ؑ نے سر دیا اﷲ کیلئے ،
فاقہ کیا اﷲ کے لئے ، صبر و رضا اﷲ کے لئے ۔ میدان کربلا میں جانا اﷲ کے
لئے ۔ غور کیا جائے شریعت ، طریقت ، حقیقت و معرفت جب چاروں ملے ہیں تب جا
کے حسین بنے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا دو بھاری بھرکم چیزیں امت کے درمیان
چھوڑے جارہا ہوں قرآن و اہلبیت ؑ ، یہ مجھے حوض کوثر پر ملیں گے۔ اہلبیت ؑ
کے بغیر قرآن سمجھنا محال ہے، بہت سے لوگ رفقاء حسین ؑ شہیدان کربلا کو
بہتّر (۷۲) پڑھتے ہیں، اس لئے ان سے محبت کرکے ہم بھی بہتر ہیں، بہتر
اور بہتّر ملے جھلے لفظ ہیں، دنیا و آخرت میں حسینیت ؑ زندہ آباد و
یزیدمردآباد کے نعرہ لگائے جارہے ہیں، ایک دلیل صدیوں سے جاری ہے کہ اﷲ کی
راہ میں حق کے لئے شہید ہونے والے آج وصوبہ قیامت تک عاشقان اہلبیت ؑ کے
دلوں میں زندہ رہیں ۔ پوری ملت اسلامیہ کے سجدوں کو اگر اکھٹا کیا جائے تب
بھی امام حسینؑ کے مقدس ایک سجدے کے برابر نہیں ہوسکتا ۔ حسین ؑ چراغ
ہدایت ہیں، حسین ؑ عقیدہ ہیں، حسین ؑ خدا کی بندگی کا حصول ہیں، نور ہیں ،
سرور ہیں ، سید اشرف حدیث پاک بیان کرتے ہوئے کہا کہ علی ؑ مع الحق الحق
مع العلی ، علی ؑ کے ساتھ ہیں حق علی ؑ کے ساتھ ہے، ساری دنیا حق کی
تلاش کررہی ہیں اور حق علی ؑ کو تلاش کررہا ہے۔ جدھر علی ؑ ہیں ادھر حق
ہے، اگر ملت اسلامیہ چاہتی ہیں کہ حق اور سچائی پر قائم رہے تو اہلبیت ؑ
سے محبت کریں اور انکے پاکیزہ کردار کو اپنائے ۔ ولایت اگر ملتی ہے تو وہ
علی ؑ کے در سے ، فاطمہ ؑ کے در سے ، حسن ؑ و حسین ؑ کے در سے ، ایمان
والے صبر والے ، حق والے ، کربلا میں امام حسین ؑ و رفقاء عالی مقام ہیں ،
اسلام کی خوبصورت سجاوٹ کا نام معرکہ کربلا ہے ، اسلام کی سیکھ اور اسلام
کی یونیورسٹی کربلا سے ملتی ہے۔ سید مکی میاں نے حالات حاضرہ پر اپنے
خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سارے عالم اسلام کے لئے کربلا کا واقعہ
ایک درس ہے ، مظلومین کے خلاف آواز بلند کرنے ڈٹ کر مقابلہ کرنے اور اپنی
جانوں کی قربانی دے کر اسلام کو سر بلند رکھنے کا ایک عظیم الشان پیغام ہے ،
آج عالم اسلام کو جن حالات کا سامنا ہے ایسے میں واقعہ کربلا ان کے لئے
ایک روشنی کا منارہ ، اگر مسلمانوں نے مظلومیت کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت
دکھائی تو پھر دشمنان اسلام کو شدید ناکامی ہوگی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ
عالم اسلام واقعہ کربلا کو اور اسلامی تاریخ کے اہم واقعہ پر عدم توجہی کا
شکار ہوکر مظلومیت ، ناانصافی ، حق تلفیوں کو برداشت کررہا ہے ۔ آج عالم
اسلام کو ایک بار پھر حضرت امام حسین ؑ کی ضرورت ہے کیونکہ باطل ابھی ختم
نہیں ہوئے بلکہ ان باطل طاقتوں نے مختلف بہروپ دھار لئے ہیں ۔ مشرقی وسطیٰ ،
مصر، لیبیا، شام ، عراق، پاکستان ، افغانستا ن ، تیونس، ترکی ، لبنان ،
الغرض عالم اسلام کے ہر حصے میں باطل طاقتوں نے مسلمانوں کو ان کی ہی
سرزمین پر حق سے محروم رکھنے ، نا انصافیوں کا شکار بنانے کی ناپاک سازشوں
کا جال پھیلا دیا ہے ۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو فرقہ پرستوں سے خطرہ ہے،
مگر افسوس مسلمانوں کے لہو میں حرارت پیدا نہیں ہورہی ہے ، حضرت امام حسین ؑ
تو کربلا میں امن مشن لیکر گئے تھے ، جسے کرب و بلا میں تبدیل کردیا گیا ،
لیکن آج کے عالم اسلام کو حضرت امام حسین ؑ کی اس لئے ضرورت ہے کہ ہمارے
اندر چھوٹے چھوٹے یزید پیدا ہوگئے ہیں۔ حضرت علامہ مولانا مفتی سید شاہ
محمد خلیل اﷲ صاحب، سجادہ نشین روضہ حیدری گنگا وتی (کامل جامعہ نظامیہ )
نے اپنے خطاب میں کہا کربلا کا اہم ترین درس شہادت ، ایثار، اور فدا کاری
ہے ، امام حسین ؑ نے فقط انسانیت کی بقا کے خاطر کربلا کے تپتے ریگزار میں
اپنا بھرا گھر حتی کے اپنا ششماہی فرزند شہزادہ علی اضعر ؑ بھی قربان
کردےئے ، ایثار فداکاری ، قربانی ، وغیرہ یہ وہ اعلیٰ انسانی صفات ہیں اگر
کسی معاشرہ یا قوم میں پیدا ہوجائیں تو وہ قوم یا معاشرہ کبھی بھی تاریخ کی
اندھیری کوٹھریوں میں دفن نہیں ہوسکتا ۔ اور یہی وہ صفات ہیں جن کو امام
حسین ؑ نے ۶۱ ھ میں بشریت کا خاصہ بنادیا اور آج ۱۴ صدیاں گذر جانے کے
بعد بھی واقع کربلا کی باز گشت چہار جانب سنائی دے رہی ہے ۔ اگر تاریخ کے
اوراق پر سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو
ایسی نہ جانے کتنی مثالیں مل جائیں گی
جن کا سر چشمہ اور منبع واقعہ کربلا ہے ، یہی کربلا کا ہدف بھی تھا کہ
انسان بیدارہوجائے ، مظلوم، ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گفتگو کریں،
ذلت کی ندگی کے بجائے عزت کے ساتھ مرجانا سیکھیں، فداکاری ، ایثار و قربانی
جیسے جذبوں کو اپنے اندر پیداکریں ، پھر فتح اس کی ہوگی، جو ان صفات کا
حامل ہوگا۔ ظالم یعنی باطل کو ایک نہ ایک دن ماضی کا حصہ بننا ہی ہوتا ہے
یہی وہ پیغام ہے جو واقع کربلا ہمیں دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہزاروں برس
گزر جانے کے باوجود کربلا آج بھی زندہ ہے ، اور اس وقت تک رہے گا جب تک
امام حسین ؑ کا مقدس پیغام سننے والے باقی رہیں گے۔
حضرت علامہ مولانا ڈاکٹر سید عبدالمعز حسینی شرفی ، پروفیسر آئڈیل ڈگری
کالج، حیدرآباد نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا ، کہ وجہ تخلیق کائنات ، حبیب
کردگار، باعث فخر آدم و حوا، ابوالعوالم ، خاتم النبین محمد عربی ﷺ کے
مقدس اہلبیتؑ اطہار جن کی یاد کو تازہ کرنا اور محبت کو اپنے دلوں میں
قائم و دائم رکھنا یہ عین ایمان کی علامت ہے ۔ اہلبیت ؑ اطہار سفینہ نوح
کی طرح ہیں جو اس کشتی میں سوار ہو ا بس اسکو نجات مل گئی۔ اہلبیت ؑ کی
محبت عین ایمان ہے اور تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔ انہوں نے مزید یہ کہا کہ
کشتی اہلبیت ؑ اطہار کی ہو اور روشنی صحابہ کرام اتباع سے حاصل کی جائے ۔
اور احادیث کریمہ سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ آل رسول ؐ سے محبت کرنے
کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ دنیاسے حالت ایمان میں جائیگا اور شہادت کا درجہ
پاکر جائیگا اور جو آل رسول ؐ سے بغض و عناد رکھے گا وہ منافق ہوکر جہنم
رسید ہوگا اور جس نے آل عباء پر ظلم کیا وہ جنت سے محروم ہوگیا ۔ اور جو
سیدنہ ہو وہ اپنے نام کے آگے اگر جان بوجھ کر سید لگائے گا تو گناہ کبیرہ
کا مرتکب ہوگا اور نوبت کفر تک پہنچے گا، یعنی اپنا نسب اور اپنے باپ کا
نام چھوڑ کر کسی دوسرے کو اپنا باپ کہے گا وہ نطفہ حرام ہوگا۔
اس اجلاس کی قیادت فرمارہے تاج المشائخ حضرت الحاج ڈاکٹر سید شاہ تاج
الدین احمد قادری حسنی الحسینی، سجادہ نشین رائچور و یلارتی شریف نے اپنے
خطاب میں فضیلت و عظمت اہلبیت ؑ بیان کرتے ہوئے یہ کہا کہ اہلبیت ؑ رسول
اﷲ ﷺ سے خلفائے راشدینؓ و صحابہ ؓ کرام بے پناہ محبت کرتے تھے جس کی مثال
ہمیں بے شمار احادیث مبارکہ سے ملتی ہے ، مزید یہ کہا کہ حب اہلبیت ؑ کا
اس قدر غلبہ رہے کہ اپنے ایمان و عقیدہ میں نکھار و شفافیت پیدا ہو ۔ اپنے
مخصوص انداز میں بارگاہ اہلبیت ؑ میں خراج عقیدت کو پیش کرتے ہوئے فرمایا
کہ ہمیں حضرت رسول اﷲ ﷺ کے اہل بیت ، قرابت داروں سے سچی محبت رکھنی
چاہئے۔ وہ قرابت دار جنہوں سرکار دو عالم ﷺ کی دعوت پر لبیک کہا ، اور
حضور انور ﷺ کی محبت و دین الاسلام کی خاطر جنہوں نے صوب�ۂ قیامت تک یاد
رکھنے والی و قربانیاں و شہادتیں پیش کیں ان میں سے حضرت علیؓ ، حضرت بی
بی فاطمہؓ ، حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہم بھی اعلیٰ
مقام رکھتے ہیں، موصوف نے آیت قرآن مجید کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ
محبوب نبی ؐ آپ فرمادیجئے کہ میں تبلیغ رسالت اورارشاد وہدایت پر تم سے
کوئی اجر یا معاوضہ نہیں چاہتا۔ بلکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ تم میرے رشتہ
داروں سے محبت کرو چونکہ میرے اہلبیت ؑ روشن ستارے ہیں ، جن سے تم کو
ہدایت نصیب ہوتی رہے گی۔ حضرت مشائخ نے مزید یہ کہا کہ دنیا نے دیکھ بھی
لیا کہ 61ھ کے آغاز میں جب یزیدی فتنہ نے عالم اسلام کو اپنے نرغہ میں لینا
چاہا اور طاقت کے زور پر بیعت لینے کے احکامات گورنروں کو دےئے گئے تو اس
وقت یہی آل رسول حضرت حسینؓ اور ان کے پاکیزہ گھرانے والے رضی اﷲ عنہم
یزید کے سامنے جبل استقامت بن کر سینہ سپر ہوگئے اور اپنی جانوں کی پروانہ
کرکے دین حق کی حفاظت کی۔ تاج المشائخ نے جاہل مرشدوں کو اپنے نام سے پہلے
سید لگانے سے گریز کرنے کی تاکید کی اور فرمایا کہ آل رسول ؐ چونکہ رسول
پاک ﷺ کے قربت دار ہیں ان کے علاوہ کسی غیر سید کو اپنے نام سے پہلے سید
لگاکر حضور ﷺ کی امتیوں کو گمراہ کرے گا اسکے گریبان پر بروز حشر رسول پاک ﷺ
کا ہاتھ ہوگا اور گمراہ کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہوگا ۔
رونق اسٹیج سادات کرام ، مشائخین عظام، صوفیاء وعلمائے کرام کے نورانی
قافلہ کو دیکھ کر کثیر تعداد میں شرکت فرما عاشقان آل رسول ؐ نے نعرہ تکبیر
و نعرہ رسالت کی صدائیں بلند کیں جبکہ ملک و ریاست کے مختلف مقامات ،
اترپردیش، کچھوچہ شریف، لکھنؤ ، حیدرآباد ، بیجاپور، گلبرگہ ، رائچور،
نندلور، پنگنڈہ شریف ،کرناٹک کے مختلف مقامات وشہر بنگلور کے بے شمار سادات
کرام و مشائخین و صوفیاء و علمائے کرام کا تعارف کراتے ہوئے جمعیت
الصوفیاء والمشائخ آل کرناٹک کے رکن قاری صوفی ولی با صاحب قادری نے شاندار
استقبالیہ خطاب و نظامت کے فرائض کو انجام دیا ۔ شریک کانفرنس تمام سادات و
مشائخین و صوفیاء و علمائے کرام نے سیدہ زینب ایجوکیشن کے چیرمین جناب
عتیق احمد صاحب چشتی کو 3واں عظمت اہلبیت ؑ کافنرنس کے کامیاب انعقاد پر
مبارکباد پیش کی ۔
صوفی سید عتیق احمد اشرفی الجیلانی حضرت سید شاہ محمد خلیق اشرف اشرفی
الجیلانی، حضرت سید شاہ قاسم قادری ، سجادہ نشین گچی محل ،حضرت سید شاہ
محمد قادر ولی پیراں صاحب، سجادہ نشین ، حضرت سید گڈے قادر پیراں صاحب،
مکندہ شریف ، حضرت مولانا معروف حسینی صاحب شرفی، سجادہ نشین ،حیدرآباد،
حضرت سید شاہ حفیظ اﷲ حسینی، سجادہ نشین بارگاہ سید قتال حسینی، کولم پلی،
حیدرآباد، حضرت سید حبیب علی شاہ چشتی حسینی، حیدرآباد، حضرت سید شاہ کمال
اﷲ حسینی السبیلی، سجادہ نشین سید محمد سیل اﷲ حسینی، (نقطہ نواز) دبیل
پورہ ، حیدرآباد، حضرت سید شاہ محمد ابراہیم زبیری القادری سجادہ نشین ،
حضرت سید شاہ مرشد قادری ، سجادہ نشین اگستبال گوگی، حضرت سید اسمعےٰل
قادری صاحب، بیجاپور، حضرت سید شاہ تاج الدین احمد قادری سجادہ نشین نور
دریا (رائچور)، حضرت سید شاہ تاج الدین حسینی رضوی چشتی القادری ،نندلور،
حضرت سید شاہ کمال بادشاہ حسینی چشتی القادری ،ہنور، حضرت شاہ محمد اقبال
درویش القادری ، شولاپور، حضرت سید شاہ میر حسینی سہروردی ، پنگنڈہ شریف،
حضرت خواجہ امتیاز حسین شاہ صوفی چشتی القادری، حضرت سید شاہ محمد فخرالدین
اصدق صاحب قبلہ قادری، حضرت ڈاکٹرسید شاہ محمد سرمد علی شاہ صاحب نصیری،
حضرت سید جلال الدین شاہ سجادہ نشین بیلن کوٹہ،حضرت توکل مستان شاہ ؒ
درگاہ شریف کے الحاج نثار احمد صاحب، آل کرناٹک میلاد و سیرت جلوس رحمت
اللعالمین کے صدر الحاج اسمعٰیل شریف عرف نانا وارثی ، و دیگر سماجی و
سیاسی قائدین وغیرہ نے شرکت کی۔ اختتام میں صوفی ولی با شہدائے کربلا کی
بارگاہ میں صلوٰۃ وسلام کے نذرانہ کو پیش کیاجبکہ حضرت علامہ مولانا سید
شاہ حسن محمد شمس الحق صاحب قبلہ الحسنی والحسینی ، صدر کانفرنس نے جامع
انداز میں فاتحہ ودعافرمائی۔
جناب عتیق احمد صاحب چشتی القادری ، چیرمین نور زینبؓ ایجوکیشن فاؤنڈیشن
نے کانفرنس میں شرکت کرنے والے تمام سجادگان ، مشائخین و صوفیاء و علمائے
کرام و عاشقان اہلبیت ؑ سامعین کرام کا فرداً فرداً شکریہ ادا کیا ضیافت
عام کا بھی اہتمام کیا گیا ۔ فقط والسلام